صدیوں میں وہ لفظ ہے تمھارا
اک لفظ جو اپنا اب لکھو گے
لکھتے ہیں پر یہ نہیں جانتے لکھنے والے
نغمہ اندو ہ سماعت ہے اثر ہو نے تک
وہ مجھے بھول گیا ہے شاید
یاد آ جاؤں تو آ کر لے جائے
ایسے ملتا نہیں مٹّی کو دوام
بس خدا جس کو بنا کر لے جائے
لوگ محبت کرنے والے دیکھیں گے تصویر اپنی
ایک شعاعِ آوارہ ہوں آئینۂ شبنم میں ہوں
وہ پیاس ہے کہ دعا بن گیا ہے میرا وجود
کب آئے گا جو کوئی ابرِ تر بھی آتا ہے
اتنے شّفاف کہ تھے روح و بدن آئینہ
اصل کے اصل میں دیکھے تھے نظارے ہم نے
وہ آخری آدمی خُدا کا
سب لفظ و بیاں بدل گیا ہے
اک سوال اور اک سوال کے بعد
انتہا حیرتوں کی حیرت ہے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks