محشر میں وہ نادم ہوں خدا یہ نہ دکھائے
آنکھوں نے کبھی اس کو پشیماں نہیں دیکھا
ملتا نہیں ہم کو دل گم گشتہ ہمارا
تو نے تو کہیں اے غم جاناں نہیں دیکھا
لو اور سنو کہتے ہیں وہ دیکھ کے مجھکو
جو حال سنا تھا وہ پریشان نہیں دیکھا
محبت میں کرے کیا کچھ کسی سے ہو نہیں سکتا
مرا مرنا بھی تو میری خوشیسے ہو نہیں سکتا
کیا ہے وعدہ فردا انہوں نے دیکھئے کیا ہو
یہاں صبر و تحمل آج ہی سے ہو نہیں سکتا
چمن میں ناز بلبل نے کیا جب اپنے نالے پر
چٹک کر غنچہ بولا نہیں کیا کسی ہے ہو سکتا
نہ رونا ہے طریقہ کا نہ ہنسنا ہے سلیقےکا
پریشانی میں کوئی کا جی سے ہو نہیں سکتا
ہوا ہوں اس قدر محبوب عرض مدعا کر کے
اب تو عذر بھی شرمندگی سے ہو نہیں سکتا
دور تھی از بسکہ راہِ انتظار
تھک کے ہر پائے نظر دکھنے لگا
There are currently 3 users browsing this thread. (0 members and 3 guests)
Bookmarks