جوانی محوِ آرائش تھی پوری خود نمائی سے
دو عالم آئنہ بردار تھے ، کل شب جہاں میں تھا
گدازِ قربتِ اصنام سے دل پگھلے جاتے تھے
نفس صہبا ، بدن گلنار تھے ، کل شب جہاں میں تھا
گماں ہوتا تھا شاید زندگی پھولوں کا گجرا ہے
گلوں کے اس قدر انبار تھے ، کل شب جہاں میں تھا
تہی بھی ہوں تو پیمانے حسیں معلوم ہوتے ہیں
حقائق سے تو افسانے حسیں معلوم ہوتے ہیں
ملاقاتیں مسلسل ہوں تو دلچسپی نہیں رہتی
بے بے ترتیب یارانے حسیں معلوم ہوتے ہیں
جوانی نام ہے اک خوبصورت موت کا ساقی
بھڑک اٹھیں تو پروانے حسیں معلوم ہوتے ہیں
وہ مے کش تیری آنکھوں کی حکایت سن کے آیا ہے
جسے ہر وقت پیمانے حسیں معلوم ہوتے ہیں
اداسی بھی عدم احساسِ غم کی ایک دولت ہے
بسا اوقات ویرانے حسیں معلوم ہوتے ہیں
اس کی پائل اگر چھنک جائے
گردشِ آسماں ٹھٹھک جائے
There are currently 3 users browsing this thread. (0 members and 3 guests)
Bookmarks