دوستوں کے نام یاد آنے لگے
تلخ و شیریں جام یاد آنے لگے
خوبصورت تہمتیں چبھنے لگیں
دل نشیں الزام یاد آنے لگے
مسیح و خضر کی عمریں نثار ہوں اس پر
وہ زندگی کی گھڑی جو خوشی سے گزری ہے
خزاں تو خیر خزاں ہے ، ہمارے گلشن سے
بہار بھی بڑی آزردگی سے گزری ہے
گزر تو خیر گئی ہے عدم حیات مگر
ستم ظریف بڑی بے رُخی سے گزری ہے
میں دانستہ حقائق کی ڈگر سے لوٹ آیا ہوں
میں تفریحاً طرب انگیز افسانوں میں رہتا ہوں
چلتی گاڑی سے جو ٹکرا کر گری وہ فاختہ
تھی تلاشِ رزق میں نکلی کہ غارت ہو گئی
چاہے جو شکل بھی وہ، بناتا ہے اِن دنوں
لوہا تپا کے اور اُسے لا کے سان پر
آنکھ میں اُس کے لبوں کا وداعی سنّاٹا
ہاتھ میں مُندری کی سی نشانی جیسا ہے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks