محبت، ہجر نفرت مل چکی ہے
میں تقریباً مکمل ہو چکا ہوں
اپنی تصویر لگا دی ہے ترے خواب کے ساتھ
میں نے یوں عمر گزاری ہے ترے خواب کے ساتھ
میں جہاں پر تھا وہیں پر ہوں مگر جانے کیوں
روز اک دھول سی اڑتی ہے ترے خواب کے ساتھ
یہ ریگزار ضروری نہیں سبھی کو ملیں
میاں یہ عشق ہے تازہ کہانی دیتا ہے
ہر ایک شخص یہی دیکھنے کو بیٹھا ہے
تمہارا ہجر کسے کیا نشانی دیتا ہے
وہ مجھ کو پھول تو تازہ ہی بھیجتا ہے ندیم
مگر کتاب ہمیشہ پرانی دیتا ہے
شامِ غم کے سب سہارے ٹوٹ کر
ختم ہو جائیں نہ تارے ٹوٹ کر
بارشوں نے کام دریا کا کیا
کیا کریں گے اب کنارے ٹوٹ کر
اک تمہارا عشق زندہ رہ گیا
مر گئے ہم لوگ سارے ٹوٹ کر
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks