ندیم اک شخص کو پانے کی خاطر
مجھے حد سے گزرنا پڑ گیا ہے
عجیب ہوں کہ محبت شناس ہو کر بھی
اداس لگتا نہیں ہوں اداس ہو کر بھی
یہ ہم جو پٹّیاں آنکھوں پہ باندھے گھر سے نکلے ہیں
ہم ایسوں کو کوئی اندھا کنواں ہی لینے آئے گا
یہ آدمی پہ حکومت تمہیں مبارک ہو
فقیر کیسے چھپے خوش لباس ہو کر بھی
چاند روشن ہے تو بس شب کی اذیت تک ہے
جانتا ہوں کہ ترا ساتھ ضرورت تک ہے
ایک کردار کہانی کے لیے میں بھی ہوں
اور صحرا بھی مری آخرت ہجرت تک ہے
شجر کی ٹہنیوں کے پاس آنے سے ذرا پہلے
دعا کی چھاؤں میں کچھ پل گزارا کر لیا جائے
ہمارا مسئلہ ہے مشورے سے اب بہت آگے
کسی دن احتیاطاً استخارا کر لیا جائے
مرا مقصد یہاں رکنا نہیں بس اتنا سوچا ہے
سفر سے پیشتر اس کا نظارا کر لیا جائے
There are currently 3 users browsing this thread. (0 members and 3 guests)
Bookmarks