غموں کی رات بڑی بے کلی سے گزری ہے
گزر گئی ہے مگر جاں کئی سے گزری ہے
گلوں سے دوستی ہے ، شبنم ستانوں میں رہتا ہوں
بڑے دلچسپ اور شاداب رومانوں میں رہتا ہوں
کنارے پر نہ کیجئے گا زیادہ جستجو میری
کہ میں لہروں کا متوالا ہوں ، طوفانوں میں رہتا ہوں
جیسے ہرن کی ناف ہتھیلی پہ آ گئی
کیا نام تھا، سجا تھا کبھی، جو زبان پر
اُس پر گمانِ مکر ہے اب یہ بھی ہو چلا
تھگلی نہ ٹانک دے وہ کہیں آسمان پر
ماجدؔ ہلے شجر تو یقیں میں بدل گیا
جو وسوسہ تھا سیلِ رواں کی اٹھان پر
تاج کسی لا وارث شہ کا، نگری میں
کون اُترتے دم ہی، بھلا پہنائے مجھے
میں کہ جسے اِک ایک تمنّا عاق کرے
کون سخی ہو ایسا، جو اپنائے مجھے
گئے دنوں کے نئے ولولے تلاش کروں
کھنچے ہوؤں سے مراسم نئے تلاش کروں
There are currently 4 users browsing this thread. (0 members and 4 guests)
Bookmarks