یوں تو اٹا نہ تھا کبھی گردِ سکوت سے
راہوں میں اِس طرح تو نہ تھا ہر شجر اداس
یہ گھر میں پھر سے پرندوں کے غول کیوں اترے
ابھی تو پچھلے سفر کی تکان باقی ہے
زمانے بھر کو تسلی دلانے والے سن
یہ ایک شخص ابھی بدگمان باقی ہے
مرے نصیب کے سارے ستارے ٹوٹ گئے
یہ اور بات ابھی آسمان باقی ہے
اس کی باتیں، اس کا لہجہ اور میں ہوں
نظم پڑی ہے مصرعہ مصرعہ، اور میں ہوں
ایک دیا رکھا ہے ہوا کے کاندھے پر
جس کا لرزتا، جلتا سایا اور میں ہوں
اس گاؤں کی آبادی بس اتنی ہے
شہر سے بھاگ کے آنے والا اور میں ہوں
چاروں جانب تنہائی کے لشکر ہیں
بے ترتیب سا ایک ہے کمرہ اور میں ہوں
ویسے تو سب لوگ یہاں پر مردہ ہیں
اس نے مجھ کو زندہ سمجھا، اور میں ہوں
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks