اُسے بھیجیں بھی گر ہم کارزارِ مکر میں ماجدؔ
پلٹ کر ایلچی پہلی سی بِپتا ہی سنائے گا
٭٭٭
یونہی اس عشق میں اتنا گوارا کر لیا جائے
کسی پچھلی محبت کو دوبارہ کر لیا جائے
ندیم اس شہر میں مانوس گلیاں بھی بہت سی ہیں
اور اب آئے ہیں تو ان کا نظارا کر لیا جائے
رابطہ مجھ سے مرا جوڑ دیا کرتا تھا
وہ جو اک شخص مجھے چھوڑ دیا کرتا تھا
مجھے دریا، کبھی صحرا کے حوالے کر کے
وہ کہانی کو نیا موڑ دیا کرتا تھا
اس سے آگے تو محبت سے گلہ ہے مجھ کو
تو تو بس ہات مرا چھوڑ دیا کرتا تھا
بات پیڑوں کی نہیں غم ہے پرندوں کا ندیم
گھونسلے جن کے کوئی توڑ دیا کرتا تھا
جیسے یہ اب ہیں کُند نہ تھیں اِن کی یوں سُریں
دیکھے نہیں تھے ایسے کبھی نغمہ گر اداس
گزر رہا ہوں مگر وقت کے ارادے سے
مرا وجود بندھا ہے ہوا کے دھاگے سے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks