آج بھی ماجدؔ انسانوں سے انسانوں کا چلن
حیوانی لگتا ہے، غیر انسانی لگتا ہے
وسعتِ تِیرہ شبی ، تنہا روی ہے اور ہم
جگنوؤں سی اپنی اپنی روشنی ہے اور ہم
مری ہتھیلی پہ تم خود کو ڈھونڈنا چھوڑو
مرے نصیب میں آئیں گے حادثات بہت
بھیڑیوں کی دھاڑ کو سمجھیں صدائے رہنما
خوش گماں بھیڑوں سی طبعی سادگی ہے اور ہم
کیا سلوک ہم سے کرے یہ منحصر ہے زاغ پر
گھونسلے کے بوٹ سی نا آگہی ہے اور ہم
ہاں یہی وہ فصل ہے پکنے میں جو آتی نہیں
زخمِ جاں کی روز افزوں تازگی ہے اور ہم
وہ ہم ہی تھے کہ جنہیں ڈوبنا پڑا ورنہ
سمندروں کے کنارے رکھے تھے ہات بہت
ناگہانی آندھیوں میں جو خس و خاشاک کو
جھیلنی پڑتی ہے وہ بے چارگی ہے اور ہم
ناخدا کو ناؤ سے دیکھا ہو جیسے کُودتے
دم بہ دم ماجد کچھ ایسی بے بسی ہے اور ہم
There are currently 7 users browsing this thread. (0 members and 7 guests)
Bookmarks