دیکھ کر لپکے جو ہونٹوں پر تبسّم کے گلاب
کوئی تتلی اب سرِ شاخِ نظر آتی نہیں
خاک اچھال بھی دے تو دُور خلا میں ، تنبو تانیں گے
شاخِ شجر سے ٹوٹ گریں گے ،ہار نہ لیکن مانیں گے
ہم درویش ہیں شاہ نہیں ہیں ، حرص زدہ گمرہ نہیں
نوکِ زبان پر بھی وہی ہوگا، جو کچھ جی میں ٹھانیں گے
دھُوپ کے تِیر ہوں یا، صحرائی ریت کی قاتل کنکریاں
جیتے جی جو تن پر برسا اُسے پھُہار ہی جانیں گے
دیکھ چکے ہم سا دہ مزاجی آدم کی ، لیکن اب تو
اوّل دن سے جو بھی ملا شیطان اُسے پہچانیں گے
خون میں برپا اِک محشر سا ہر پل لگتا ہے
پُوری عمر کی دُوری پر آتا کل لگتا ہے
سارا رنگ اور رس ہے اُس کی قربت سے ورنہ
دل ویرانہ لگتا ہے دل جنگل لگتا ہے
آنکھ میں شب کی اوٹ میں کھلتی کلیوں کی سی حیا
اُس کے رُخ پر لپٹا چاند کا آنچل لگتا ہے
اپنے اِک اِک دن کا سورج خون آشام لگے
چہرہ اپنے ہر اخبار کا مقتل لگتا ہے
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks