دعائے فصل کچھ اِس طرح سے پڑی اُلٹی
بہ کشتِ جان ہیں اُگنے لگے عذاب نئے
اِسی کے دم سے، جو سادہ دلی بہم تھی ہمیں
دل و نظر میں اُبھرنے لگے ہیں خواب نئے
ذرا سے رُت کے تغیّر پہ کیا سے کیا ماجد
کھُلے ہیں نام درختوں کے احتساب نئے
جلد ہی الزام یہ اب ہر کسی پر آئے گا
اپنے ہونے سے اُسے، زندہ ہے جو، ڈر آئے گا
کرگسوں سے بچ نکلنے کی خبر لائے گا وہ
لَوٹ کر بازار سے جو شخص بھی گھر آئے گا
قحط سالی نیّتِ بد پر ہے جس کی منحصر
تہمتیں سب کھیت مزدوروں پہ وہ دھر آئے گا
خوف کے ہاتھوں سِلے ہونٹوں سے بتلائے گا کیا
کارزارِ جبر سے جو بھی پیمبر آئے گا
سلطنت میں جو بھی رنجیدہ ہو اُس کے رنج کا
دوش ماجدؔ کس شہِ بد نظم کے سر آئے گا
چُرا کر خضر کا جامہ ہمیں وہ
سلگتی جگ ہنسائی دے رہا ہے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks