کھلا جو خواب میں کل شب گلستاں
وہی تبدیل تم میں ہو گیا ہے
سر آئینہ ہوتا تھا مرا عکس
کہیں تبدیل تم میں ہو گیا ہے
تسلسل سے سفر میرے لہو کا
ہزاروں میل تم میں ہو گیا ہے
ذرا اپنے بدن کو چھو کے دیکھو
کوئی تحلیل تم میں ہو گیا ہے
دور دنیا سے کہیں ۔۔ دل میں چھپا کر رکھوں
تم حقیقت ہو مگر خواب بنا کر رکھوں
میں تو بس خاک ہوں اک روز بکھر جاؤں گی
چند لمحے سہی خود کو تو سجا کر رکھوں
تم رگ و پے سے لپٹ جاؤ چنبیلی کی طرح
اور میں یاد کو خوشبو میں بسا کر رکھوں
میں نے چاہا ہے تمہیں ایک صحیفے کی طرح
دل و جاں آیۂ مژگاں سے لگا کر رکھوں
تم جو کہہ دو کہ شبِ تار میں آنا ہے تمہیں
میں ہواؤں کو چراغوں میں رچا کر رکھوں
There are currently 3 users browsing this thread. (0 members and 3 guests)
Bookmarks