یہ پاؤں پھر تری دہلیز سے ہٹے ہی نہیں
مسافتوں کی ترے در پہ انتہا کی تھی
وہ جن گناہوں کی لذت ثواب جیسی تھی
ترے ہی نام سے ان سب کی ابتدا کی تھی
بتاؤں ترکِ مراسم کا کیا سبب کہ مری
محبتوں کی کہانی تو بس جفا کی تھی
ہوا تھا تیرا گماں خود پہ بارہا مجھ کو
مہک تیری مجسم بدن میں کیا کی تھی
عالم وگرنہ عشق میں کیا کیا نہیں لگا
دیکھا تھا جیسا خواب میں ، ویسا نہیں لگا
ٹوٹا ہوا ہے ایسے تعلق جہان سے
ملنے پہ آشنا بھی شناسا نہیں لگا
جاتے ہوئے کو دور تلک دیکھتے رہے
ایسے کہ پھر وہ لوٹ کے آتا نہیں لگا
اک دن ہوئے تھے گرمیِ بازار کا سبب
پھر اپنے نام پر وہ تماشا نہیں لگا
ویسے تو اپنی ذات میں سارے اکائی ہیں
اپنی طرح سے کوئی بھی تنہا نہیں لگا
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks