مسمار کر کے خواب مرے وہ چلا گیا
لے کر گل و گلاب مرے وہ چلا گیا
ساری حقیقتیں سرِ بازار کھل گئیں
یوں نوچ کر نقاب مرے وہ چلا گیا
آہیں بچھا گیا مری سانسوں کے آس پاس
کر کے سوا عذاب مرے وہ چلا گیا
اک لذتِ گناہ فقط رہ گئی ہے پاس
لے کر سبھی ثواب مرے وہ چلا گیا
پھر ہوائے نم میں خالی ہو گئے آنکھوں کے جام
دیکھ تُو آ کر ، گزاری کس طرح اک اور شام
کاغذی امید کی کشتی، حقیقت کا سفر
آگ میں چلنا پڑا اک خواب میں کر کے قیام
ضبط کا آنچل کبھی وابستگی کا پیراہن
یاس میں لپٹا رہا جسمِ تمنا بس مدام
منزلِ نادیدہ کی جانب رواں تھے نیند میں
اور غم کی سرزمیں کے خون آلودہ تھے گام
رات بھر رویا کروں یادوں کے بستر میں پڑے
کروٹیں لے کر شبِ تیرہ کہاں ہو گی تمام
There are currently 5 users browsing this thread. (0 members and 5 guests)
Bookmarks