یہ الگ دید کو ترستی ہوں
چار سو تیری ذات ہے ہمدم
وہ ہے کسی کا مگر اس کی صحبتیں مجھ سے
خراج لیتی ہیں کیسا محبتیں مجھ سے
جو دے رہا ہے کہیں اور روشنی اپنی
ستم کہ اس کے بدن میں ہیں حدتیں مجھ سے
عجیب شخص ہے کم گو ہے،کم نظر بھی ہے
کہ جس کے حرفِ وفا میں ہیں شدتیں مجھ سے
کبھی کبھی کے کہے اپنے چند جملوں میں
خرید لے گیا عمروں کی مدتیں مجھ سے
اس انتظارِ مسلسل کی حد کہاں ہو گی
سوال کرتی ہی رہتی ہیں فرقتیں مجھ سے
ذہن پر اس طرح سے چھائے ہو
گاہ پیکر ہو گاہ سائے ہو
بھول جانے کی آرزو کی ہے
اور شدت سے یاد آئے ہو
یوں بھی ہونے لگا جنوں میں کبھی
میرے ہونٹوں سے مسکرائے ہو
There are currently 3 users browsing this thread. (0 members and 3 guests)
Bookmarks