سنی ہوئی ہے تری آنکھ کی زباں میں نے
تجھے سنانی ہے اس دل کی بات پھر ملنا
مشکل بہت تھا ساتھ نبھانا مرے لئے
لازم تھا تجھ کو بھول ہی جانا مرے لئے
رکتا کہاں ہے وقت کسی کے بھی واسطے
ویسے بھی تھا گراں وہ زمانہ مرے لئے
اٹھتے تھے میرے پاؤں ،سفر بھی تھا دو قدم
پھر بھی کٹھن تھا لوٹ کے آنا مرے لئے
دشوار تھا تجھے بھی مرے گھر کا رستہ
شاید یہی بہت تھا بہانہ مرے لئے
آواز میرے حلق میں میری اٹک گئی
اچھا نہیں تھا تجھ کو بلانا مرے لئے
مختصر سی یہ بات ہے ہمدم
تجھ سے میری حیات ہے ہمدم
تجھ کو اپنا خیال رکھنا ہے
تُو مری کائنات ہے ہمدم
شام ہونے کو ہے چلا بھی آ
زندگی بے ثبات ہے ہمدم
There are currently 3 users browsing this thread. (0 members and 3 guests)
Bookmarks