چاندنی رات میں مہتاب سلگتا دیکھوں
نیند کی آگ میں اک خواب کو جلتا دیکھوں
آسماں پر کئی تارے ہیں مگر کچھ بھی نہیں
آسماں سے پرے اک نور دمکتا دیکھوں
کل کہ دہلیز پہ ٹھوکر سے سنبھالا تھا جسے
آج اس شخص کو دریا میں اترتا دیکھوں
آرزو ہے کسی بچے کے کھلونے کی طرح
دل اسی کانچ کی گڑیا سے بہلتا دیکھوں
راز کی بات سرِ بزم ہو افشا کیوں کر
ہاں مگر دل سے لہو روز ٹپکتا دیکھوں
سینک لیتی ہوں جگر درد کے انگاروں سے
روپ اس آنچ کی حدت میں سنورتا دیکھوں
غم کہ ہر بار نئی شکل میں ڈھل جاتا ہے
میں تو خوابوں کو سرابوں میں بدلتا دیکھوں
ہوئی جو ہوش میں کیوں کر بہ نام بادہ ہوئی
خطا کہاں تھی جو کہہ دیں بلا ارادہ ہوئی
وصالِ حسنِ مجازاں تھا مختصر کتنا
ستم کہ راہِ فغاں کس قدر کشادہ ہوئی
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks