پھیلا کے اپنے گرد تصاویر اور خطوط
بکھرا ضرور ہو گا بچھڑنے کے بعد وہ
راتوں کی سائیں سائیں میں تنہائیوں کے بیچ
جاگا ضرور ہو گا بچھڑنے کے بعد وہ
دہلیز پر پرانے زمانوں کا منتظر
بیٹھا ضرور ہو گا بچھڑنے کے بعد وہ
اٹھتے قدم ہماری طرف روکتے ہوئے
اُلجھا ضرور ہو گا بچھڑنے کے بعد وہ
ہر زخم کا علاج مسیحائی میں نہیں
سمجھا ضرور ہو گا بچھڑنے کے بعد وہ
اِک دِل میں تھا اِک سامنے دریا اُسے کہنا
ممکن تھا کہاں پار اُترنا اسے کہنا
ہجراں کے سمندر میں ہیولا تھا کسی کا
اِمکاں کے بھنور سے کوئی اُبھرا اُسے کہنا
اِک حرف کی کرچی کہیں سینے میں چُبھی تھی
پہروں تھا کوئی ٹوٹ کے رویا اُسے کہنا
مدت ہوئی خورشید گہن سے نہیں نِکلا
ایسا کہیں تارا کوئی ٹوٹا اُسے کہنا
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks