وہی جو دولتِ دل ہے وہی جو راحتِ جاں
تمہاری بات پہ اے ناصحو! گنواؤں اسے
لہرائیں گے ہونٹوں پہ دکھاوے کے تبسم
ہو گا یہ نظارہ کوئی دم اب کے برس بھی
شب سلگتی ہے دو پہر کی طرح
چاند، سورج سے جل بجھا جیسے
کسی کشِش کے کسی سلسلے کا ہونا تھا
ہمیں بھی آخرش اِک دائرے کا ہونا تھا
برہنہ تن بڑی گزری تھی زندگی اپنی
لباس ہم کو ہی اِک دوسرے کا ہونا تھا
ہم اپنا دیدۂ بینا پہن کے نِکلے تھے
سڑک کے بیچ کسی حادثے کا ہونا تھا
ہمارے پاؤں سے لپٹی ہوئی قیامت تھی
قدم قدم پہ کسی زلزلے کا ہونا تھا
ہم اپنے سامنے ہر لمحہ مرتے رہتے تھے
ہمارے دِل میں کسی مقبرے کا ہونا تھا
تم آ سکے نہ شبِ قدر کے اجالے میں
وگرنہ وصل بڑے مرتبے کا ہونا تھا
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks