وہ لوگ اب کہاں ہیں جو کہتے تھے کل فرازؔؔ
ہے ہے خدا نہ کردہ تجھے بھی رلائیں ہم
اُتری تھی شہرِ گل میں کوئی آتشیں کرن
وہ روشنی ہوئی کے سلگنے لگے بدن
غارت گرِ چمن سے عقیدت تھی کس قدر
شاخوں نے خود اتار دیے اپنے پیرہن
اس انتہائے قرب نے دھندلا دیا تجھے
کچھ دور ہو کہ دیکھ سکوں تیرا بانکپن
میں بھی تو کھو چلا تھا زمانے کے شور میں
یہ اتفاق ہے کہ وہ یاد آ گئے معاً
جس کے طفیل مہر بلب ہم رہے فرازؔؔ
اس کے قصیدہ خواں ہیں سبھی اہلِ انجمن
کیسی طلب اور کیا اندازے مشکل ہے تقدیر بنے
دل پر جس کا ہاتھ بھی رکھیو آخر وہ شمشیر بنے
غم کے رشتے بھی نازک تھے تم آئے اور ٹوٹ گئے
دل کا وحشی اب کیا سنبھلے اب کیا شے زنجیر بنے
اپنا لہو تیری رعنائی تاریکی اس دنیا کی
میں نے کیا کیا رنگ چنے ہیں دیکھوں کیا تصویر بنے
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks