ہزار بار کیا ترکِ دوستی کا خیال
مگر فراز پشیمان ہر اک بار ہوئے
یہ انتقام بھی لینا تھا زندگی کو ابھی
جو لوگ دشمنِ جاں تھے وہ غمگسار ہوئے
گلہ اُسی کا کیا جس سے تجھ پہ حرف آیا
وگرنہ یوں تو ستم ہم پہ بے شمار ہوئے
بلا کی رَو تھی ، ندیمانِ آبلہ پا کو
پلٹ کے دیکھنا چاہا کہ خود غبار ہوئے
تجھے اداس کیا خود بھی سوگوار ہوئے
ہم آپ اپنی محبت سے شرمسار ہوئے
کیوں زمانے کو دیں فراز الزام
وہ نہیں ہیں تو بے وفا ہیں ہم
خود کو سنتے ہیں اس طرح جیسے
وقت کی آخری صدا ہیں ہم
راکھ ہیں ہم اگر یہ آگ بجھی
جز غمِ دوست اور کیا ہیں ہم
اس طرح سے ہمیں رقیب ملے
جیسے مدت کے آشنا ہیں ہم
There are currently 5 users browsing this thread. (0 members and 5 guests)
Bookmarks