راحت تھی بہت رنج میں ہم غم طلبوں کو
تم اور بگڑتے تو سنورتے کوئی دن اور
ہم نے تجھے دیکھا تو کسی کو بھی نہ دیکھا
اے کاش ترے بعد گزرتے کوئی دن اور
راتوں کو تری یادوں کے خورشید اُبھرتے
آنکھوں میں ستارے سے اترتے کوئی دن اور
اچھا تھا اگر زخم نہ بھرتے کوئی دن اور
اُس کوئے ملامت میں گزرتے کوئی دن اور
اب نہ وہ میں،نہ وہ تُو ہے،نہ وہ ماضی ہے فرازؔ
جیسے دو شخص تمنّا کے سرابوں میں ملیں
آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر
کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں
تُو خدا ہے نہ مرا عشق فرشتوں جیسا
دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں
غمِ دنیا بھی غمِ یار میں شامل کر لو
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
ڈھونڈ اُجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
There are currently 11 users browsing this thread. (0 members and 11 guests)
Bookmarks