ہزار کوس پہ تُو اور یہ شام غربت کی
عجیب حال تھا پر کس سے گفتگو کرتے
چمن پرست نہ ہوتے تو اے نسیمِ بہار
مثالِ برگِ خزاں تیری جستجو کرتے
یہ قرب مرگِ وفا ہے اگر خبر ہوتی
تو ہم بھی تجھ سے بچھڑنے کی آرزو کرتے
بہت دنوں سے ہے بے آب چشمِ خوں بستہ
وگرنہ ہم بھی چراغاں کنارِ جُو کرتے
گُلوں سے جسم تھے شاخِ صلیب پر لرزاں
تو کس نظر سے تماشائے رنگ و بُو کرتے
کبھی تو ہم سے بھی اے ساکنانِ شہرِ خیال
تھکے تھکے ہوئے لہجے میں گفتگو کرتے
بس اک نعرۂ مستاں دریدہ پیرہنو
کہاں کے طوق و سلاسل بس ایک ہُو کرتے
کسی طرح تو بیانِ حرفِ آرزو کرتے
جو لب سِلے تھے تو آنکھوں سے گفتگو کرتے
اُسے فراز اگر دکھ نہ تھا بچھڑنے کا
تو کیوں وہ دور تلک دیکھتا رہا مجھ کو
There are currently 3 users browsing this thread. (0 members and 3 guests)
Bookmarks