تم گئے ہو تو سر شام یہ عادت ٹھہری
بس کنارے پہ کھڑے ہاتھ ہلاتے رہنا
جانے اس دل کو یہ آداب کہاں سے آئے
اس کی راہوں میں نگاہوں کو بچھاتے رہنا
ایک مدت سے یہ معمول ہوا ہے اب تو
آپ ہی روٹھنا اور آپ مناتے رہنا
تم کو معلوم ہے فرحت کہ یہ پاگل پن ہے
دور جاتے ہوئے لوگوں کو بلاتے رہنا
کہیں آرزوئے سفر نہیں، کہیں منزلوں کی خبر نہیں
کہیں راستہ ہی اندھیر ہے کہیں پا نہیں کہیں پر نہیں
مجھے اضطراب کی چاہ تھی مجھے بے کلی کی تلاش تھی
انھیں خواہشات کے جرم میں کوئی گھر نہیں کوئی در نہیں
کوئی چاند ٹوٹے یا دل جلے یا زمیں کہیں سے ابل پڑے
اہم اسیر صورت حال ہیں ہمیں حادثات کا ڈر نہیں
اے ہوائے موسم ذرا مجھے ساتھ رکھ میرے ساتھ چل
میرے ساتھ میرے قدم نہیں میرے پاس میری نظر نہیں
یہ جو عمر بھر کی ریاضتیں یہ نگر نگر کی مسافتیں
یہ تو روگ ہیں مہ وسال کا یہ تو گردشیں ہیں سفر نہیں
There are currently 6 users browsing this thread. (0 members and 6 guests)
Bookmarks