اس شہر کو سچ سننے کی عادت ہی نہیں ہے
لگتے ہیں سبھی کو میرے افکار مخالف
سنتے تھے کہ بس ہوتے ہیں اغیار مخالف
میرے تو نکل آئے ہیں سب یار مخالف
جو بات بھی ہو دل میں چھپاتا نہیں فرحتؔ
ہر روز بنا لیتا ہوں دو چار مخالف
باہر بھی اپنے جیسی خدائی لگی مجھے
ہر چیز میں تمھاری جدائی لگی مجھے
جیون میں آج تیرے لیے رو نہیں سکا
جیون میں آج رات پرائی لگی مجھے
مہندی جچی کچھ ایسے تیرے نرم ہاتھ پر
اک کائنات دست حنائی لگی مجھے
پتی تیری پلک کا کنارا مجھے لگی
شاخ گلاب تیری کلائی لگی مجھے
دھڑکن میں تال تیرے خیالوں کی بج اٹھی
سانسوں میں تیری نغمہ سرائی لگی مجھے
حق میں اسی کے فیصلہ ہر شخص نے دیا
ہر شخص تک اسی کی رسائی لگی مجھے
There are currently 4 users browsing this thread. (0 members and 4 guests)
Bookmarks