زخم تحریر سلا لینے دو
یہ بھی جاگیر سلا لینے دو
شاید آ جائے گی پھر نیند ہمیں
نقش زنجیر سلا لینے دو
آنکھ جائے گی مگر پتلی میں
جو ہے تصویر سلا لینے دو
ہم کو موسم ہے یہی راس ہمیں
اپنی تقدیر سلا لینے دو
زلزلے چاہنے والو مجھ کو
شوق تعمیر سلا لینے دو
شہر تو سو بھی چکا مر بھی چکا
ایک رہ گیر سلا لینے دو
آنکھ گھبرا ہی نہ جائے فرحتؔ
رنگ تعبیر سلا لینے دو
ِ شہر ویران کے دروازے کے لگ کر روئے
اپنی پہچان کے دروازے سے لگ کر روئے
اپنا پتھر تھا مکاں اس کا کہ یوں لگتا تھا
ہم بیابان کے دروازے سے لگ کر روئے
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks