کوئی بھی رد عمل مفقود ہے
اتنی ساری رائیگانی کیا کروں
میں تیرے جذبوں کی شدت کا بیاں
صرف قاصد کی زبانی کیا کروں
تو نے کس جا پہ اتارا ہے ابھی
کس قدر دور کنارا ہے ابھی
اپنی تقدیر بدل سکتا ہوں
میری مٹھی میں ستارا ہے ابھی
زندگی کہتی ہے کچھ دیر ٹھہر
لیکن اس کا تو اشارہ ہے، ابھی
تم ابھی پاس کھڑے ہو میرے
مجھ کو ہر شخص گوارا ہے ابھی
ہم اسے سونپ چکے ہیں سب کچھ
اور وہ کہتا ہے خسارہ ہے ابھی
وصل کچھ دیر ٹھہر جانے دے
دل تیرے ہجر کا مارا ہے ابھی
دیکھ ٹلتی ہے مصیبت کیسے
میں نے مولا کو پکارا ہے ابھی
There are currently 4 users browsing this thread. (0 members and 4 guests)
Bookmarks