چاند جب بھی دیکھا سمندر کے کنارے ہم نے
اور پھیلا دئیے کچھ اپنے کنارے ہم نے
اور سب زندگی پہ تہمت ہے
زندگی آپ اپنی لذت ہے
عجیب تھی وہ عجب طرح چاہتا تھا میں
وہ بات کرتی تھی اور خواب دیکھتا تھا میں
اب تو یوں خانۂ تنہائی میں محبُوب آئے
جیسے مجذوب کے گھر دوسرا مجذوب آئے
صاحب مہر وفا ارض و سما کیوں چپ ہیں
ہم پہ تو وقت کے پہرے ہیں خدا کیوں چپ ہیں
ملتا جُلتا تھا حال میر کے ساتھ
میں بھی زندہ رہا ضمیر کے ساتھ
چہرہ ہوا میں اور میری تصویر ہوئے سب
میں لفظ ہوا مجھ میں ہی زنجیر ہوئے سب
وہ رات بے پناہ تھی اور میں غریب تھا
وہ جس نے یہ چراغ جلایا عجیب تھا
اب تو اس طرح مری آنکھوں میں خواب آتے ہیں
جس طرح آئینے چہروں کو ترس جاتے ہیں
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks