درد کی سلطنت کا راج ملا
بے قراری کا تخت و تاج ملا
وقت اک شعبدہ سا ہے اور بس
کل ملا ہے کبھی نہ آج ملا
آنکھ نا ہی کھلے تو بہتر ہے
آنکھ کھولی تو یہ رواج ملا
عشق سے بیاہ ہو گیا اور پھر
دل کی دلہن کو غم کا داج ملا
لگ کے کندھے سے روتا جاتا تھا
آج تک جو بھی ہم مزاج ملا
دن کو ہم سے ملا ہے صبر جمیل
رات کو درد کا خراج ملا
تیری یادیں ہی چھانتے ہیں ہم
دیکھو کیسا یہ کام کاج ملا
جاتے جاتے اس طرح سب کچھ سوالی کر گیا
روح کا کمرہ بھرا رہتا تھا خالی کر گیا
اب نہ کوئی راہ چیختی ہے نہ کوئی ہمسفر
ایک دو دن کے سفر کو یوں مثالی کر گیا
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks