کسی کے نام لگ جائے بلا سے
یہ دل پہلے سے ہی ٹوٹا ہوا ہے
ہم تجھے شہر میں یوں ڈھونڈتے ہیں
جس طرح لوگ سکوں ڈھونڈتے ہیں
ہم گو منصور نہیں ہیں لیکن
اس کا انداز جنوں ڈھونڈتے ہیں
جس سے ٹکراتی رہے پیشانی
تیرے دکھ میں وہ ستوں ڈھونڈتے ہیں
وہ تو کھویا ہے کہیں باطن میں
ہم جسے اپنے بروں ڈھونڈتے ہیں
ہم کہ ترسی ہوئی شریانیں ہیں
اور اک قطرہ خوں ڈھونڈتے ہیں
حسن و جمال کے بھی زمانے نہیں رہے
آنکھوں میں اس کی خواب سہانے نہیں رہے
ملنے کو آ ہی جاتا ہے ہر چند روز بعد
لگتا ہے اس کے پاس بہانے نہیں رہے
لرزش ہے ہاتھ میں تو نظر بھی ہے دُھندلی
پہلے سے اب وہ دل کے نشانے نہیں رہے
There are currently 5 users browsing this thread. (0 members and 5 guests)
Bookmarks