بچھڑنے کے زمانے آ گئے ہیں
اسے کتنے بہانے آ گئے ہیں
اداسی میں گھرے رہتے تھے جب ہم
وہ سارے دن پرانے آ گئے ہیں
نہیں ہیں خوش گرا کر عرش سے بھی
زمیں سے بھی اٹھانے آ گئے ہیں
وہ ہم پر مسکرانے آ گئے ہیں
نیا اک غم لگانے آ گئے ہیں
کسی کی موت کے آثار دل میں
صف ماتم بچھانے آ گئے ہیں
بتا دو موسم گریہ کو فرحت
کہ ہم رونے رلانے آ گئے ہیں
کہاں دل قید سے چھوٹا ہوا ہے
ابھی تک شہر سے روٹھا ہوا ہے
ہمیں کیسے کہیں اس دل کو سچا
ہمارے سامنے جھوٹا ہوا ہے
کسی کا کچھ نہیں اپنا یہاں پر
یہ سب سامان ہی لوٹا ہوا ہے
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks