یہ تن کہ جیسے چٹخنے کو جامِ مے ہو کوئی
لب و نگاہ میں رقصاں تھیں خواہشیں کیا کیا
لہُو میں آگ، شرارے نظر میں تھے اپنی
مچل اُٹھی تھیں بدن میں تمازتیں کیا کیا
رُوئیں رُوئیں کو زباں بخش دی تھی اُس نے مگر
وضاحتوں میں تھیں پھر بھی قباحتیں کیا کیا
ہر اِک کے نفس تھا کوئی موجۂ صبا جیسے
لبوں کے بیچ در آئی تھیں کونپلیں کیا کیا
دمِ وصال پھلانگی گئیں حدیں کیا کیا
وُہ مہرباں تھا تو کیں ہم نے وحشتیں کیا کیا
اُس کے پیکر سے اپنی یہ وابستگی
گُنگ لمحوں کے منہ میں زباں دیکھنا
اُس کے رُخ پرنظر کا نہ ٹِکنا تو پھر
دفعتاً جانبِ آسماں دیکھنا
ہائے وُہ ہاتھ جن کی ہے تحریر وُہ
حرف در حرف مخفی جہاں دیکھنا
کنجِ لب جیسے کھڑکی کھُلے خُلد کی
قامت و قد کو طوبیٰ نشاں دیکھنا
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks