ہیں شاخِ نظر کے یہ تقاضے
یہ برگ نہ ہاتھ سے مسلنا
چھپنا پسِ ابر چاند جیسا
لہروں سا سرِ نظر اُچھلنا
سورج سا نگاہ میں مچلنا
آغوش سے چاند بن کے ڈھلنا
ماجد ہے کس کا فیضِ قرابت کہ اِن دنوں
پودے سبھی سخن کے ثمر دار ہو گئے
دو وقت، دو بدن تھے، کہ جانیں تھیں دو بہم
رستے تمام مطلعِ انوار ہو گئے
اپنے بدن کے لمس کی تبلیغ دیکھنا
ہم سحرِ آذری کے پرستار ہو گئے
زندہ رہے جو تُجھ سے بچھڑ کر بھی مُدّتوں
ہم لوگ کس قدر تھے جگر دار ہو گئے
ہر جنبشِ بدن کے تقاضے تھے مختلف
جذبے تمام مائلِ اظہار ہو گئے
سب سرحدوں سے شوق کی ہم پار ہو گئے
تُجھ سے ملے تو ابرِ گہر بار ہو گئے
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks