پتہ دیتا ہے ماجدؔ کو ترا ہی
یہ مرغانِ نفس کا چہچہانا
جو کھنچنا تو رُتوں کو مات کرنا
قریب آنا تو رَگ رَگ میں سمانا
ٹھِٹھکنا قُرب سے فرمائشوں کی
سلیقے بُعد کے ہم کو سکھانا
تمہیں آتا ہے مرغِ آرزُو کے
پروں کو نوچ کر ہر سُو اڑانا
ترستی ہے جسے اپنی سماعت
وُہی اک حرف ہونٹوں پر نہ لانا
وُہی جس کی ہمیں پیہم لپک ہے
وُہی منظر نگاہوں سے چھپانا
مچلنا، مُسکرانا، رُوٹھ جانا
لہومیں اِک تلاطم نِت اُٹھانا
بُہت سینچ بیٹھے ہو ماجدؔ غزل کو نمِ دردِ جاں سے
اگر ہو سکے تو ذرا اِس میں من کے تقاضے بھی لاؤ
بُلاتی ہے خود ابر کو دیکھ لو اپنی جانب یہ کھیتی
تمہارا بدن کہہ رہا ہے ’’لہومیں مرے سر سراؤ‘‘
There are currently 5 users browsing this thread. (0 members and 5 guests)
Bookmarks