مایوسی کے عالم میں بھی اے خورشید
ہم نے اک امید کا رستہ پہن لیا تھا
بتا کے حالِ دلِ زار اک زمانے کو
عجیب لوگ ہیں رسوائیوں سے ڈرتے ہیں
ہم اپنے دل میں چھپائے ہوئے تری خوشبو
ترے خیال کی پُروائیوں سے ڈرتے ہیں
کسی کے نام پہ خورشید کاٹ لیں گے حیات
بس ایک عمر کی تنہائیوں سے ڈرتے ہیں
حرف حرف میں موجود
بات کا اثر ہوں میں
منزلوں چلوں گا ساتھ
ایک رہگذر ہوں میں
دھوپ کی عنایت ہے
سایۂ شجر ہوں میں
پیڑ ہوں خیالوں کا
اور بے ثمر ہوں میں
ختم ہو نہیں سکتا
خواب کا سفر ہوں میں
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks