کبھی کبھی کے کہے اپنے چند جملوں میں
خرید لے گیا عمروں کی مدتیں مجھ سے
اس انتظارِ مسلسل کی حد کہاں ہو گی
سوال کرتی ہی رہتی ہیں فرقتیں مجھ سے
ذہن پر اس طرح سے چھائے ہو
گاہ پیکر ہو گاہ سائے ہو
بھول جانے کی آرزو کی ہے
اور شدت سے یاد آئے ہو
یوں بھی ہونے لگا جنوں میں کبھی
میرے ہونٹوں سے مسکرائے ہو
کس طرح میں تمہیں چھپا رکھوں
تم مری روح میں سمائے ہو
کیسے مانوں کہ تم نہیں میرے
کیسے کہہ دوں کہ تم پرائے ہو
میں سمندر کے پار کیا آؤں
تم تو اک ساحلی سرائے ہو
اس نے وفا کی اور ہی رسمیں بنائی ہیں
مجھ سے بڑھا کے غیر سے نظریں ملائی ہیں
There are currently 3 users browsing this thread. (0 members and 3 guests)
Bookmarks