دشوار تھا تجھے بھی مرے گھر کا رستہ
شاید یہی بہت تھا بہانہ مرے لئے
آواز میرے حلق میں میری اٹک گئی
اچھا نہیں تھا تجھ کو بلانا مرے لئے
مختصر سی یہ بات ہے ہمدم
تجھ سے میری حیات ہے ہمدم
تجھ کو اپنا خیال رکھنا ہے
تُو مری کائنات ہے ہمدم
شام ہونے کو ہے چلا بھی آ
زندگی بے ثبات ہے ہمدم
اپنی آنکھیں جلا کے میز پہ رکھ
کتنی تاریک رات ہے ہمدم
یہ الگ دید کو ترستی ہوں
چار سو تیری ذات ہے ہمدم
وہ ہے کسی کا مگر اس کی صحبتیں مجھ سے
خراج لیتی ہیں کیسا محبتیں مجھ سے
جو دے رہا ہے کہیں اور روشنی اپنی
ستم کہ اس کے بدن میں ہیں حدتیں مجھ سے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks