میرا باطن تو تم پہ ظاہر ہے
خود کو بھی آشکار کرنا کبھی
تم نے جو کہہ دیا صحیفہ ہے
میرا بھی اعتبار کرنا بھی
تم جہاں بھی ہو صرف میرے ہو
اعتراف ایک بار کرنا کبھی
سانس لیتے ہو تم بدن سے مرے
مجھ اپنا شمار کرنا کبھی
موڑ اک پُر خطر بھی آتا ہے
اور رستے میں گھر بھی آتا ہے
عشق کی داستاں عجیب سی ہے
سنگ آتا ہے سر بھی آتا ہے
جانتے ہیں سو گھر سے نکلے ہیں
رہ میں رنجِ سفر بھی آتا ہے
اک ہیولہ ہے ساتھ رہتا ہے
چاہنے پر نظر بھی آتا ہے
لاکھ تنہائی کی منازل ہوں
راہ میں ہمسفر بھی آتا ہے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks