یکساں ہے حسن و عشق کی سر مستیوں کا رنگ
ان کی خبر انہیں ہے نہ میری خبر مجھے
آیا نہ راس نالۂ دل کا اثر مجھے
اب تم ملے تو کچھ نہیں اپنی خبر مجھے
ہر سُو دِکھائی دیتے ہیں وہ جلوہ گر مجھے
کیا کیا فریب دیتی ہے میری نظر مجھے
بیتابیِ محبت وجہ سکونِ غم ہے
آغوش مضطرب میں خوابیدہ ہیں بلائیں
اس حسن برق وش کے دل سوختہ وہی ہیں
شعلوں سے بھی جو کھیلیں دامن کو بھی بچائیں
اُس سے بھی شوخ تر ہیں اس شوخ کی ادائیں
کر جائیں کام اپنا لیکن نظر نہ آئیں
سب ان پہ ہیں تصدق وہ سامنے تو آئیں
اشکوں کی آرزوئیں آنکھوں کی التجائیں
جگر اب تو وہ ہی یہ کہتے ہیں مجھ سے
تیرے ناز اٹھانے کو جی چاہتا ہے
حسیں تیری آنکھیں، حسیں تیرے آنسو
یہیں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے
There are currently 5 users browsing this thread. (0 members and 5 guests)
Bookmarks