اگر حائل نہ اُس رخ پر نقابِ رنگ و بُو ہوتی
کسے تابِ نظر رہتی، مجالِ آرزو ہوتی؟
نہ اک مرکز پہ رُک جاتی، نہ یوں بے آبرُو ہوتی
محبت جُستجُو تھی، جُستجُو ہی جُستجُو ہوتی
ترا ملنا تو ممکن تھا، مگر اے جانِ محبوبی!
مرے نزدیک توہین مذاق جستجو ہوتی
نگاہِ شوق اُسے بھی ڈھال لیتی اپنے سانچے میں
اگر اِک اور بھی دنیا ورائے رنگ و بُو ہوتی
ہائے وہ کیونکر دل بہلائے
غم بھی جس کو راس نہ آئے
مل کے بھی جو کبھی نہیں ملتا
ٹوٹ کر دل اسی سے ملتا ہے
اللہ رے وہ شدت جذبات کا عالم
کچھ کہہ کے وہ بھولی ہوئی ہر بات کا عالم
انہیں جب سے ہے اعتمادِ محبت
وہ مجھ سے جگر بد گماں اور بھی ہیں
خوشا درسِ غیرت ، زہے عشقِ تنہا
وہاں میں نہیں ہوں، جہاں اور بھی ہیں
There are currently 3 users browsing this thread. (0 members and 3 guests)
Bookmarks