ملا کے آنکھ نہ محرومِ ناز رہنے دے
تجھے قسم جو مجھے پاک باز رہنے دے
میں اپنی جان تو قربان کر چکوں تجھ پر
یہ چشمِ مست ابھی نیم باز رہنے دے
گلے سے تیغِ ادا کو جدا نہ کر قاتل!
ابھی یہ منظر راز و نیاز رہنے دے
یہ تیر ناز ہیں تو شوق سے چلائے جا
خیالِ خاطر اہلِ نیاز رہنے دے
بجھا نہ آتشِ فرقت کرم کے چھینٹوں سے
دلِ جگر کو مجسم گداز رہنے دے
وہ کب کے آئے بھی اور گئے بھی ، نظر میں اب تک سما رہے ہیں
یہ چل رہے ہیں وہ پھر رہے ہیں، یہ آرہے ہیں وہ جا رہے ہیں
وہی قیامت ہے قد بالا، وہی ہے صورت وہی سراپا
لبوں کو جنبش، نگہ کو لرزش، کھڑے ہیں اور مُسکرا رہے ہیں
وہی لطافت، وہی نزاکت، وہی تبسم، وہی ترنم
میں نقش حرماں بنا ہوا ہوں، وہ نقشِ حیرت بنا رہے ہیں
خرامِ رنگیں، نظامِ رنگیں، کلام رنگیں، پیام رنگیں
قدم قدم پر، روش روش پر ، نئے نئے گُل کھلا رہے ہیں
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks