کبھی درخت کبھی جھیل کا کنارا ہے
یہ ہجر ہے کہ محبت کا استعارا ہے
تم آؤ اور کسی روز اس کو لے جاؤ
بس ایک سانس ہے اس پر بھی حق تمہارا ہے
خدائے عشق گلہ تجھ سے ہے جہاں سے نہیں
مرے لہو میں محبت کو کیوں اتارا ہے
یہ سوچ لینا مجھے چھوڑنے سے پہلے تم
تمہارا عشق مرا آخری سہارا ہے
یہ سوچ لینا مجھے چھوڑنے سے پہلے تم
تمہارا عشق مرا آخری سہارا ہے
ابھی تو کھال ادھڑنی ہے اس تماشے میں
ابھی دھمال میں جوگی نے سانس ہارا ہے
جان اگر جائے تو احسان پرایا جائے
جان اگر جائے تو احسان پرایا جائے
اب مرا نام مرے ساتھ مٹایا جائے
چاندنی کم ہے یہاں سب کے اجالے کے لیے
رات اندھیری ہے بہت چاند جلایا جائے
کرۂ ارض پہ اب نیند اتر آئی ہے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks