اتنا تو تعلق نبھاتے ہوئے کہتا
میں لوٹ کے آئوں گا وہ جاتے ہوئے کہتا

پہچانو مجھے ۔میں وہی سورج ہوں تمہارا
کیسے بھلا لوگوں کو جگاتے ہوئے کہتا

یہ صرف پرندوں کے بسیرے کیلئے ہے
انگن میں کوئی پیڑ لگاتے ہوئے کہتا

ہر شخص مرے ساتھ اناالحق سرِ منزل
آواز سے آواز ملاتے ہوئے کہتا

اک موجِ مسلسل کی طرح نقش ہیں میرے
پتھر پہ میں اشکال بناتے ہوئے کہتا

اتنا بھی بہت تھا مری مایوس نظر کو
وہ دور سے کچھ ہاتھ ہلاتے ہوئے کہتا

یہ تیرے عطا کردہ تحائف ہیں میں کیسے
تفصیل مصائب کی بتاتے ہوئے کہتا

موسم کے علاوہ بھی ہو موجوں میں روانی
دریا میں کوئی نظم بہاتے ہوئے کہتا

عادت ہے چراغ اپنے بجھانے کی ہوا کو
کیا اس سے کوئی شمع جلاتے ہوئے کہتا

میں اپنی محبت کا فسانہ اسے منصور
محفل میں کہاں ہاتھ ملاتے ہوئے کہتا