_________________________________
__________________
Similar Threads:
Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.
_________________________________
__________________
Similar Threads:
Last edited by intelligent086; 09-02-2014 at 10:02 PM.
دائروں کی آنکھ دی ، بھونچال کا تحفہ دیا
پانیوں کو چاند نے اشکال کا تحفہ دیا
رفتہ رفتہ اجنبی لڑکی لپٹتی ہی گئی
برف کی رت نے بدن کی شال کا تحفہ دیا
سوچتا ہوں وقت نے کیوں زندگی کے کھیل میں
پائوں میرے چھین کر فٹ بال کا تحفہ دیا
’’آگ جلتی ہے بدن میں ‘‘بس کہا تھا کار میں
ہم سفر نے برف کے چترال کا تحفہ دیا
رات ساحل کے کلب میں مچھلیوں کو دیر تک
ساتھیوں نے اپنے اپنے جال کا تحفہ دیا
کچھ تو پتھر پر ابھر آیا ہے موسم کے طفیل
کچھ مجھے اشکوں نے خدوخال کا تحفہ دیا
پانیوں پر چل رہے تھے عکس میرے ساتھ دو
دھوپ کو اچھا لگا تمثال کا تحفہ دیا
وقت آگے تو نہیں پھر بڑھ گیا منصور سے
یہ کسی نے کیوں مجھے گھڑیال کا تحفہ دیا
پہلے سورج کو سرِ راہ گزر باندھ دیا
اور پھر شہر کے پائوں میں سفر باندھ دیا
چند لکڑی کے کواڑوں کو لگا کر پہیے
وقت نے کار کے پیچھے مرا گھر باندھ دیا
وہ بھی آندھی کے مقابل میں اکیلا نہ رہے
میں نے خیمے کی طنابوں سے شجر باندھ دیا
میری پیشانی پہ انگارے لبوں کے رکھ کے
اپنے رومال سے اس نے مرا سر باندھ دیا
لفظ کو توڑتا تھا میری ریاضت کا ثمر
وسعت ِ اجر تھی اتنی کہ اجر باندھ دیا
چلنے سے پہلے قیامت کے سفر پر منصور
آنکھ کی پوٹلی میں دیدہ ء تر باندھ دیا
کھینچ لی میرے پائوں سے کس نے زمیں ،میں نہیں جانتا
میرے سر پہ کوئی آسماں کیوں نہیں ، میں نہیں جانتا
کیوں نہیں کانپتابے یقینی سے پانی پہ چلتے ہوئے
کس لئے تجھ پہ اتنا ہے میرا یقیں ، میں نہیں جانتا
ایک خنجر تو تھا میرے ٹوٹے ہوئے خواب کے ہاتھ میں
خون میں تر ہوئی کس طرح آستیں ، میں نہیں جانتا
کچھ بتاتی ہیں بندوقیں سڑکوں پہ چلتی ہوئی شہر میں
کس طرح ، کب ہوا ، کون مسند نشیں ، میں نہیں جانتا
لمحہ بھر کی رفاقت میں ہم لمس ہونے کی کوشش نہ کر
تیرے بستر کا ماضی ہے کیا میں نہیں ، میں نہیں جانتا
کیا مرے ساتھ منصورچلتے ہوئے راستے تھک گئے
کس لئے ایک گھر چاہتا ہوں کہیں ، میں نہیں جانتا
پندار ِ غم سے ربط ِمسلسل نہیں ہوا
شاید مرا جمال مکمل نہیں ہوا
پھر ہو گی تجھ تلک مری اپروچ بزم میں
مایوس جانِ من ترا پاگل نہیں ہوا
ممکن نہیں ہے جس کا ذرا سا مشاہدہ
میری نظر سے وہ کبھی اوجھل نہیں ہوا
لاء ڈسٹ بن میں پھینک دیا ہست کا مگر
قانونِ بود ہم سے معطل نہیں ہوا
دست ِ اجل نے کی ہے تگ ودو بڑی مگر
دروازہء حیات مقفل نہیں ہوا
منصور اپنی ذات شکستہ کئے بغیر
پانی کا بلبلہ کبھی بادل نہیں ہوا
مری بدلحاظ نگاہ نے مجھے عرشِ جاں سے گرا دیا
وہ جو مرتبت میں مثال ہے اسی آستاں سے گرا دیا
مجھے کچھ بھی اس نے کہا نہیں مگر اپنی رت ہی بدل گئی
مجھے دیکھتے ہوئے برف کو ذرا سائباں سے گرادیا
مجھے دیکھ کر کہ میں زد پہ ہوں سرِ چشم آخری تیر کو
کسی نے کماں پہ چڑھا لیا کسی نے کماں سے گرا دیا
ہے عجب مزاج کی وہ کوئی کبھی ہم نفس کبھی اجنبی
کبھی چاند اس نے کہا مجھے کبھی آسماں سے گرا دیا
میں وہ خستہ حال مکان تھا جسے خوف ِ جاں کے خیال سے
کسی نے یہاں سے گرادیا کسی نے وہاں سے گرا دیا
وہ چشم سراپا حیرت تھی کیا میں نے کیا
وہ اس کا مکاں تھا اپنا پتہ جا میں نے کیا
ہے فکر مجھے انجام مرے ہاتھوں سے نہ ہو
آغاز کا کیا ہے اس نے کیا یا میں نے کیا
کچھ زخم گلی کے بلب تلے تحریر کئے
پھر اپنے لہوسے اپنا تماشا میں نے کیا
صد شکر دئیے کی آخری لو محفوظ ہوئی
ہے فخر مجھے دربند ہوا کا میں نے کیا
منصور وہ میری آنکھ کو اچھی لگتی تھی
سو ہجر کی کالی رات سے رشتہ میں نے کیا
خود اپنے آپ سے شرمندہ رہنا
قیامت ہے مسلسل زندہ رہنا
یہاں روبوٹ کم ہیں آسماں سے
یہ دنیا ہے یہاں آئندہ رہنا
مجھے دکھ کی قیامت خیز رت میں
محبت نے کہا ’’پائندہ رہنا‘‘
سمٹ آئی ہے جب مٹھی میں دنیا
کسی بستی کا کیا باشندہ رہنا
سکھاتا ہے مجھے ہر شام سورج
لہو میں ڈوب کر تابندہ رہنا
یہی منصور حاصل زندگی کا
خود اپنا آپ ہی کارندہ رہنا
مدت کے بعد گائوں میں آیا ہے ڈاکیا
لیکن اٹھی نہیں کوئی چشم ِ سوالیا
رہنے کو آئی تھی کوئی زہرہ جبیں مگر
دل کا مکان درد نے خالی نہیں کیا
جو زندگی کی آخری ہچکی پہ گل ہوئی
اک شخص انتظار کی اس رات تک جیا
پوچھی گئی کسی سے جب اس کی کوئی پسند
آہستگی سے اس نے مرانام لے لیا
تارے بجھے تمام ، ہوئی رات راکھ راکھ
لیکن مزارِ چشم پہ جلتا رہا دیا
تکیے پہ بُن رہا ہے ترا شاعر ِفراق
منصور موتیوں سے محبت کا مرثیا
ٹوٹا ہوا سینے میں کوئی تھا اسے کہنا
میں سنگ صفت تو نہیں رویا اسے کہنا
اک آگ لگا دیتے ہیں برسات کے دل میں
ہم لوگ سلگتے نہیں تنہا اسے کہنا
دروازے پہ پہرے سہی گھر والوں کے لیکن
کھڑکی بھی بنا سکتی ہے رستہ اسے کہنا
اے بجھتی ہوئی شام ! محبت کے سفرمیں
اک لوٹ کے آیا تھا ستارہ اسے کہنا
نازل ہوں مکمل لب و عارض کے صحیفے
ہر شخص کا چہرہ ہے ادھورا اسے کہنا
شہ رگ سے زیادہ ہے قریں میرا محمد
لولاک سے آگے ہے مدنیہ اسے کہنا
منصور مزاجوں میں بڑا فرق ہے لیکن
اچھا مجھے لگتا ہے بس اپنا اسے کہنا
عرش تک میانوالی بے کنار لگتا تھا
دیکھتا جسے بھی تھا کوہسار لگتا تھا
بارشوں کے موسم میں جب ہوا اترتی تھی
اپنے گھر کا پرنالہ آبشار لگتا تھا
دوستوں کی گلیوں میں رات جب مچلتی تھی
کوچہ ء رقیباں بھی کوئے یار لگتا تھا
ایک چائے خانہ تھا یاد کے سٹیشن پر
بھیگتے اندھیرے میں غمگسار لگتا تھا
ایک نہر پانی کی شہر سے گزرتی تھی
اس کا یخ رویہ بھی دل بہار لگتا تھا
ادھ جلے سے سگریٹ کے ایک ایک ٹکڑے میں
لاکھ لاکھ سالوں کا انتظار لگتا تھا
قید اک رگ و پے میں روشنی کی دیوی تھی
جسم کوئی شیشے کا جار وار لگتا تھا
باتھ روم میں کوئی بوند سی ٹپکتی تھی
ذہن پر ہتھوڑا سا بار بار لگتا تھا
ہمسفر جوانی تھی ہم سخن خدا منصور
اپنا ہی زمانے پر اقتدار لگتا تھا
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks