جو درد مری روح میں پھیلا نہیں ملتا
اب دائرہ در دائرہ دریا نہیں ملتا

تدبیر کا مرہم بھلا کیا کام کرے گا
تقدیر کے زخموں کا مدا و ا نہیں ملتا

اس شہر کی گلیوں میں کسے ڈھونڈ رہے ہو
ٹوٹے ہوئے خوابوں کا مسیحا نہیں ملتا

اغراض نے اخلاص کی صورت ہی بدل دی
اب کوئی کسی سے کبھی بے جا نہیں ملتا
٭٭٭٭٭٭٭


Similar Threads: