جی میں ہے یادِ رخ و زلفِ سیہ فام بہت
رونا آتا ہے مجھے ہرسحَر و شام بہت

دستِ صیّاد تلک بھی نہ میں پہنچا جیتا
بے قراری نے لیا مجھ کو تہِ دام بہت

ایک دو چشمک ادھر گردشِ ساغر کہ مدام
سر چڑھی رہتی ہے یہ گردشِ ایام بہت

دل خراشی و جگر چاکی و خون افشانی
ہوں تو ناکام پہ رہتے ہیں مجھے کام بہت

پھر نہ آئے جو ہوئے خاک میں جا آسودہ
غالباً زیرِ زمیں میرؔ ہے آرام بہت


Similar Threads: