کون جانے کہاں ہے شہرِ سکوں
قریہ قریہ بھٹک رہا ہے جنوں
نورِ منزل مجھے نصیب کہاں
میں ابھی حلقۂ غبار میں ہوں
یہ ہے تاکید سننے والوں کی
واقعہ خوشگوار ہو تو کہوں
کن اندھیروں میں کھو گئی ہے سحر
چاند تاروں پہ مار کر شب خوں
تم جسے نورِ صبح کہتے ہو
میں اسےگردِ شام بھی نہ کہوں
اب تو خونِ جگر بھی ختم ہوا
میں کہاں تک خلا میں رنگ بھروں
جی میں آتا ہے اے رہِ ظلمت
کہکشاں کو مروڑ کر رکھ دوں



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote
Bookmarks