اب وہ نہیں کہ آنکھیں تھیں پُر آب روز و شب
ٹپکا کرے ہے آنکھوں سے خونناب روز و شب

اس کے لیے نہ پھرتے تھے ہم خاک چھانتے
رہتا تھا پاس وہ درِ نایاب روز و شب

قدرت تو دیکھ عشق کی مجھ سے ضعیف کو
رکھتا ہے شاد بے خور و بے خواب روز و شب

اب رسمِ ربط اُٹھ ہی گئی ورنہ پیش ازیں
بیٹھے ہی رہتے تھے بہم احباب روز و شب


Similar Threads: