بھری محفل میں تنہا بولتا ہے
وہ اپنے قد سے اونچا بولتا ہے
وہ اپنی ذات کے زنداں کا قیدی
پسِ دیوار تنہا بولتا ہے
یہ ہونا تھا مآلِ گریہ بندی
سرِ مِژگاں ستارا بولتا ہے
مہِ کامل کو چُپ سی لگ گئی ہے
مرے گھر میں اندھیرا بولتا ہے
مرے افکار کی موجیں رواں ہیں
مرے لہجے میں دریا بولتا ہے
سنو، شاید اترنے کو ہے طوفاں
سمندر کا کنارا بولتا ہے
یہ کیا کم ہے کہ میں تنہا نہیں ہوں
یہاں کوئی تو مجھ سا بولتا ہے
***
Edit Post
Reply
Reply With Quote
![]()
Similar Threads:
Bookmarks